Urdu story|| stories in Urdu || Moral Story|| قسمت llUrdu kahaniya||
قسمت
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین بہنیں ایک گاؤں میں میں اپنے تایا ابو کے ساتھ رہتی تھی. سب سے بڑی بہن بارہ سال کی تھی اور اس کا نام ثانیہ تھا وہ دیکھنے میں بڑی معصوم اور پیاری تھی ثانیہ کی چھوٹی بہن نو سال کی تھی اسکا نام رانیہ تھا اور اس کی سب سے چھوٹی بہن چار سال کی تھی اس کا نام مسرت تھا . وہ تینوں اپنے تایا ابو کے پاس رہتی تھی مسرت کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ایک ایکسیڈنٹ میں مسرت کے والد وفات پا گئے . یہ مسرت کی والدہ کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور مسرت کی پیدائش کے وقت کچھ پچیدگی کی وجہ سے ان کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا
if you do not understand Urdu please click the link below to read the same story in English:
نانی امی ہم تینوں بہنوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی لیکن تایا ابو کی کوئی اولاد نہیں تھی اور یہ تینوں ان کے بھائی کی بیٹیاں تھیں. تایا ابو نے ہم تینوں کو اپنے پاس رکھنے کی ضد کی تو نانی امی مان گی . تایا ابو نے ہم تینوں کو اپنی اولاد کی طرح پالا پوسا .ہمیں بھی تایا ابو سے بہت انسیت تھی ایسے ہی وقت گزرتا رہا ثانیہ نے میٹرک کا امتحان بہت شاندار نمبروں سے پاس کیا .سب بہت خوش تھے تایا ابو ثانیہ کو اچھے کالج میں بھجنا چاہتے تھے .لیکن اچانک تایا ابو بیمار رہنے لگے اور کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے گھر کے مالی حالات بہت خراب ہونے لگے . گھر کے حالات خراب ہو رہے تھےاورکمانے والا کوئی نہیں تھا .آہستہ آہستہ دن گزرتے رہےتایا ابو کی صحت اور زیادہ خراب ہونے لگی. ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کے تایا ابو کا کسی اچھے ہسپتال سے علاج کروایا جا سکتامسرت بڑی ہو رہی تھی لیکن ابھی بھی بچی ہی تھی وہ ان سب حالات کو نہیں سمجتی تھی مسرت اور رانیہ کو بھی اسکول چھوڑنا پڑا ثانیہ بہت سمجھدار تھی وہ اپنی دونوں بہنوں اور تائی امی کو سنبھالتی ان کے کھانے کا خیال رکھتی . ثانیہ نے گھر میں چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی تا کہ وہ کچھ گھر کے خرچے میں ہاتھ بٹا سکے . تائی امی ان تمام حالات کی وجہ سے سے چڑچڑی ہو گئی تھی. تائی امی ویسے توبہت اچھی تھی لیکن مالی حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گئی تھی ان کو گھر کے حالات کی بھی فکر تھی اور تایا ابو کی صحت کی بھی فکر تھی
حالات اتنے زیادہ خراب ہوگئے تھے کہ دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری ہو رہی تھی .ایک دن ان کے تایا ابو نے ان تینوں بہنوں کو بلایا اور انہیں سمجھایا کہ تم تینوں نے آپس میں پیار محبت سے رہنا ہے زندگی کا کیا پتا ہوتا ہے کہ کب کیا ہو جائے مجھ سے اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دینا تینوں بہنوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور تائی امی بھی رونے لگ گی رات کو تایاابو کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی. تائی امی نے ہمیں کوسنا شروع کر دیا کہ ان کی خاطر کام کر کر کے میرے خاوند کا یہ حال ہو گیا ہے . تایا ابو کی آنکھوں میں آنسو آگئے. تائی امی کچھ کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گئ تو تایا ابو کی اچانک طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے ہم تینوں بہنوں کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا صدمے کی وجہ سے آنسو ان کے حلق میں پھنس گئے تھے جب تائی واپس آئ تو دیکھ کر بیہوش ہو گئآہستہ آہستہ لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور پھرکب کون آرہا تھا کون جا رہا تھا ہمیں کوئی ہوش نہ تھی .جب ہمارے بابا فوت ہوئے تب ہم بہت چھوٹی تھی ہمیں باپ کا پیار اور شفقت کا احساس ہی نہ تھا آج ہم یتیم ہوئے تھے ہمارے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا تایا ابو کی وفات کے بعد تائی امی صدمے میں رہنے لگی ان کا واحد سہارا ان کے شوہر تھے تائی امی گھر میں اکیلے نہیں رہ سکتی تھی اس لیے اپنے بھائی کے گھر چلی گئی لیکن اب وہ ہم تینوں کو ساتھ نہیں رکھ سکتی تھی اسی لیے ہماری نانی ہمیں اپنے گھر لے آئی نانی امی نے بھی ہمیں بہت پیار سے رکھا. ثانیہ اب بڑی ہو رہی تھی .اس لیے نانی نے ثانیہ کی شادی کرنے کا سوچا اوررانیہ کو گھر میں سلائی سکھا دی اور مسرت کو ترجمہ تفسیر کروانے لگیرانیہ کے ہاتھ میں بہت صفائی تھی اور بہت اچھے کپڑے سلائی کرنے لگی تھی آس پاس کے محلے کے لوگ بھی رانیہ سے کپڑے سلائی کروانے لگے تھے .نانی امی اب بوڑھی ہو رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ ثانیہ کی شادی ہوجائے ثانیہ اب بیس سال کی ہو گئی تھی .نانی ثانیہ کے لیے ایسا رشتہ ڈھونڈ رہی تھی جو ثانیہ کی چھوٹی بہنوں کا بھی خیال رکھیں اور انہیں تحفظ دے اس کی نانی کے کسی قریبی رشتہ دار نے ہی ثانیہ سے شادی کی حامی بھرلیلیکن وہ پہلے سے شادی شدہ تھا اس کا نام خالد تھا .شادی کے دو سال بعد ہی اس کی بیوی فوت ہو گئی تھی اس کا خود کا چھوٹا سا شوروم تھا. نانی کا فی بوڑھی ہو گئی تھی اور بیمار رہنے لگی تھی . نا نی نے ثانیہ کی شادی خالد سے کروانے کا فیصلہ کر لیااور نانی نے ثانیہ کو اپنی دعاؤں کے سائے میں رخصت کر دیا خالد بہت اچھا شوہر ثابت ہوا تھا وہ نانی اور مسرت اور رانیہ کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق خرچہ بھیج دیتا. رانیہ بہت خود دار لڑکی تھی اس نے منع کیا کیونکہ وہ خود بھی اچھا کمانے لگی تھی .مسرت نے جب قرآن پاک کا ترجمہ تفسیر کر لیا تو رانیہ نے اسے اچھے کالج میں ایڈمیشن کروادیا آہستہ آہستہ حالات کچھ بہتر ہونا شروع ہوں گےرانیہ اور مسرت تائی امی سے ملنے بھی جاتی تھیں کیونکہ بچپن سے تائی امی نے ہی انہیں سگی اولاد کی طرح پالا پوسا تھا .رانیہ کے کام کی چرچا آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تھی اس کو بہت اچھے بوتیک سے آفر آئ تو اسنے قبول کر لی. رانیہ کو بڑے آرڈرز ملنے لگے اور اس نے ساتھ ورکرز بھی رکھ لئے .سب کچھ سہی جا رہا تھا کہ اچانک نانی اماں کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی اور کچھ دنوں میں ہی وہ وفات پاگئ. مسرت اوررانیہ اکیلی پڑ گئی تھی خالد نے ثانیہ سے کہا کہ مسرت اور رانیہ کو اپنے پاس بلا لو لیکن رانیہ نے انکار کر دیا اور تائی امی کو اپنے پاس آنے کے لئے کہا تو وہ مان گئی اور وہ رانیہ اور مسرت کے ساتھ رہنے لگی رانیہ جس بوتیک کے ساتھ مل کر کام کر رہی تھی وہاں کا مالک علی رانیہ کی محنت اور لگن سے بہت متاثر ہوا تھا . رانیہ بہت پیاری اور سمجھدار تھی . اس نے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اپنی پڑھائی بھی کی اور اپنی بہن کی ذمہ داری بھی پوری کر رہی تھی. علی نے تائی امی سے رانیہ کے رشتے کی بات کی تو تائی نے ثانیہ اور خالد سے مشورہ کیا انہیں علی اور اسکی فیملی بہت پسند آئ رانیہ کی شادی علی سے ہوگی اور تائی امی اور مسرت گھر میں رہ گئے . تائی امی بہت خوش تھی کہ تایا ابو نے جو ذمہ داری لی تھی وہ آہستہ آہستہ پوری ہو رہی تھی . مسرت ابھی پڑھ رہی ہے اور ساتھ ساتھ اکیڈمی میں بچوں کو پڑھاتی ہے رانیہ اور ثانیہ اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں اور اپنی بہن اور تائی امی کا بہت خیال رکھتی ہیں تائی امی کو اب خالد اور علی کی شکل میں بہت نیک اور شریف بیٹے بھی مل گئے
رات کو تایاابو کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی. تائی امی نے ہمیں کوسنا شروع کر دیا کہ ان کی خاطر کام کر کر کے میرے خاوند کا یہ حال ہو گیا ہے . تایا ابو کی آنکھوں میں آنسو آگئے.
تائی امی کچھ کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گئ تو تایا ابو کی اچانک طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے ہم تینوں بہنوں کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا صدمے کی وجہ سے آنسو ان کے حلق میں پھنس گئے تھے جب تائی واپس آئ تو دیکھ کر بیہوش ہو گئ
رانیہ اور مسرت تائی امی سے ملنے بھی جاتی تھیں کیونکہ بچپن سے تائی امی نے ہی انہیں سگی اولاد کی طرح پالا پوسا تھا .رانیہ کے کام کی چرچا آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تھی اس کو بہت اچھے بوتیک سے آفر آئ تو اسنے قبول کر لی. رانیہ کو بڑے آرڈرز ملنے لگے اور اس نے ساتھ ورکرز بھی رکھ لئے .سب کچھ سہی جا رہا تھا کہ اچانک نانی اماں کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی اور کچھ دنوں میں ہی وہ وفات پاگئ. مسرت اوررانیہ اکیلی پڑ گئی تھی
خالد نے ثانیہ سے کہا کہ مسرت اور رانیہ کو اپنے پاس بلا لو لیکن رانیہ نے انکار کر دیا اور تائی امی کو اپنے پاس آنے کے لئے کہا تو وہ مان گئی اور وہ رانیہ اور مسرت کے ساتھ رہنے لگی
رانیہ جس بوتیک کے ساتھ مل کر کام کر رہی تھی وہاں کا مالک علی رانیہ کی محنت اور لگن سے بہت متاثر ہوا تھا . رانیہ بہت پیاری اور سمجھدار تھی . اس نے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اپنی پڑھائی بھی کی اور اپنی بہن کی ذمہ داری بھی پوری کر رہی تھی. علی نے تائی امی سے رانیہ کے رشتے کی بات کی تو تائی نے ثانیہ اور خالد سے مشورہ کیا انہیں علی اور اسکی فیملی بہت پسند آئ رانیہ کی شادی علی سے ہوگی
اور تائی امی اور مسرت گھر میں رہ گئے . تائی امی بہت خوش تھی کہ تایا ابو نے جو ذمہ داری لی تھی وہ آہستہ آہستہ پوری ہو رہی تھی . مسرت ابھی پڑھ رہی ہے اور ساتھ ساتھ اکیڈمی میں بچوں کو پڑھاتی ہے
رانیہ اور ثانیہ اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں اور اپنی بہن اور تائی امی کا بہت خیال رکھتی ہیں تائی امی کو اب خالد اور علی کی شکل میں بہت نیک اور شریف بیٹے بھی مل گئے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں